آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

مدت سے آرزو ہے کہ اِذنِ سفر ملے


دہلیزِ مصطفیٰ پہ جھکا دوں میں اپنا سر

مجھ کو اگر حضور مدینے میں گھر ملے


پلکوں سے چن سکوں میں درِ مصطفیٰ کی ضو

نعلینِ مصطفیٰ سے لگی خاکِ در ملے


اے کاش میں بھی جاؤں دیارِ رسول میں

مجھ کو بھی ان کے شہر سے کوئی گہر ملے


آقا نے جو لگایا تھا پودا کھجور کا

سائے میں بیٹھنے کو مجھے وہ شجر ملے


دل میں یہی تمنا مچلتی ہے بار بار

ہر سو جو ان کو پائے وہی بس نظر ملے


پتھر نصیب کے ہیں دھنی ان کے شہر میں

بہتر جہاں سے بڑھ کے وہاں کے ثمر ملے


بڑھتی ہی جا رہی ہے مرے دل کی آرزو

مجھ کو بھی مصطفیٰ کی مؤدت کا زر ملے


آلِ نبی سے جن کی وفا میں شعور تھا

مجھ کو انہی ستاروں سے ارفع اثر ملے


سِدرہ سے آگے جاتے ہیں نعلینِ مصطفیٰ

جبریل کو جہاں کی نہ قائم خبر ملے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

سبز گنبد کی فضاؤں کا سفر مانگتے ہیں

وہ گھر وہ کوچہ وہ قریہ مکانِ رحمت ہے

ربِ کعبہ نے کر دی عطا روشنی

تارِ ربابِ دل میں نبی کی ہیں مِدحتیں

ہو جائے دل کا دشت بھی گلزار ،یا نبی

طیبہ کا شہر، شہرِ نِگاراں ہے آپ سے

ثنا ان کی ہر دم زباں پر رہے گی

مدینہ شہر کے مالک مجھے خاکِ مدینہ دے

دل سے تڑپ کے نکلیں صدائیں مرے نبی

دل کشا، دل ربا دل کشی ہو گئی