دل میں نہیں بسایا تیرے سوا کسی کو

دل میں نہیں بسایا تیرے سوا کسی کو

دل سے نہیں لگایا تیرے سوا کسی کو


تیری گلی میں گھوما آقا تری ہی خاطر

مولا نہیں بنایا تیرے سوا کسی کو


چومیں نہیں فصیلیں ترے سوا کسی کی

سر پر نہیں بٹھایا تیرے سوا کسی کو


کھولے نہیں دریچے دل کے کسی کے آگے

یہ دل نہیں دکھایا تیرے سوا کسی کو


مانگی نہیں کسی سے تیرے سوا پناہیں

دُکھڑا نہیں سنایا تیرے سوا کسی کو


ارض و سما سے بڑھ کر دل کے حسیں محل میں

آقاؐ! نہیں بُلایا تیرے سوا کسی کو


حب نبی کا انجؔم مجھ کو ملا جو ساغر

مَیں نے نہیں پلایا تیرے سوا کسی کو

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نہ جنت کی تمنا ہو نہ دوزخ کا ہو ڈر مجھ کو

کروں تجھ سے محبت آخری منزل کے آنے تک

محمدؐ کی غلامی کر کے خود کو سرخرو کر لوں

خدا نے کیسا پیام بھیجا

میں جنت کی زمیں مانگوں نہ جنت کی ہوا مانگوں

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

درِ دل پر ہوئی دستک تو میں تیری طرف دوڑا

ایک سیلِ آرزو ہے اور مَیں

میں ہوں دیوانہ ترا اور لوگ دیوانے مرے

عمر بھر معصوم سی مہکار میں ڈوبا رہوں