نہ جنت کی تمنا ہو نہ دوزخ کا ہو ڈر مجھ کو

نہ جنت کی تمنا ہو نہ دوزخ کا ہو ڈر مجھ کو

عطا کر دے مدینے میں خدایا ایسا گھر مجھ کو


کروں ایسی محبت کاش محبوبؐ دوعالم سے

مدینہ ہی مدینہ ہر طرف آئے نظر مجھ کو


مَیں اتنا ڈوب جاؤں جانِ جاناں کے خیالوں میں

کسی شے کی نہ ہو سارے زمانے میں خبر مجھ کو


بھُلانا بھی اگر چاہوں نہ میں اُس کو بھُلا پاؤں

کبھی سونے نہ دے وہ رات کے پچھلے پہر مجھ کو


اُسی کی چھاؤں میں بیٹھا رہوں روزِ قیامت تک

عطا کردے وہی یادوں کے پھولوں کا شجر مجھ کو


وہ دو ٹکڑے ہوا ہے تیری انگلی کے اشارے سے

ترا یہ معجزہ آکر بتاتا ہے قمر مجھ کو


تری خوشبو جگا دے کاش گہری نیند سے آکر

مرے چاروں طرف محسوس ہو یہ عمر بھر مجھ کو


مدینے کی گلی کوچوں میں لے جائیں گے یہ آخر

مرے بہتے ہوئے آنسو مری یہ چشمِ تر مجھ کو


اتر جائے اگر بارِ گراں اپنے گناہوں کا

بہت آساں دکھائی دے قیامت کا سفر مجھ کو

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مرے مدنی کے طیبہ کی ہے پاکیزہ ہوا اچھی

زبانوں پہ ذکرِ کثیر آپؐ کا

بدن میرا یہاں پر ہے مگر ہے جاں مدینے میں

ماند پڑ جاتا ہے اُنؐ کے آگے حسنِ کائنات

مری جنت کے پھولوں سے مدینے کا غبار اچھا

کروں تجھ سے محبت آخری منزل کے آنے تک

محمدؐ کی غلامی کر کے خود کو سرخرو کر لوں

خدا نے کیسا پیام بھیجا

میں جنت کی زمیں مانگوں نہ جنت کی ہوا مانگوں

دل میں نہیں بسایا تیرے سوا کسی کو