بدن میرا یہاں پر ہے مگر ہے جاں مدینے میں

بدن میرا یہاں پر ہے مگر ہے جاں مدینے میں

مری جنت، مری خوشبو، مری ہے ماں مدینے میں


یہاں تو مَیں مسافر ہوں یہاں کچھ بھی نہیں میرا

مرا آقا، مرا مولا، مرا سلطاں مدینے میں


مرے کانوں پہ دستک دیتی رہتی ہے صدا اس کی

بُلاتا ہے مجھے ہر وقت ہی قرآں مدینے میں


وہ کیونکر خوش نہ ہو جس کو ملے خوشبو مدینے کی

ہر اک پتھر ہر اک دیوار ہے نازاں مدینے میں


مَیں اس اُمید پر بیٹھا ہوں اس ویران جنگل میں

مری راحت، مری بخشش کا ہے ساماں مدینے میں


چمن کی ساری خوشبو میرے دامن سے لپٹتی ہے

صحابہ کے لیے ہر پھول نغمہ خواں مدینے میں


درِ فخر دوعالم سے کوئی خالی نہیں جاتا

خدا کی رحمتیں ہیں دم بہ دم رقصاں مدینے میں


ابوبکر و عمر کی شفقتیں ہوتی ہیں ساتھ اس کے

رہا کرتا نہیں تنہا کبھی انساں مدینے میں


عمر فاروق کے رعب اور اس کے خوف سے انجؔم

قدم رکھتا نہیں ہرگز کبھی شیطاں مدینے میں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

شہنشاہ شرم و حیا آپؐ ہیں

تری دہلیز پر آیا ہوا خالی نہیں جاتا

تجھے مَیں اس قدر چاہوں کہ دل گلزار بن جائے

مرے مدنی کے طیبہ کی ہے پاکیزہ ہوا اچھی

زبانوں پہ ذکرِ کثیر آپؐ کا

ماند پڑ جاتا ہے اُنؐ کے آگے حسنِ کائنات

مری جنت کے پھولوں سے مدینے کا غبار اچھا

نہ جنت کی تمنا ہو نہ دوزخ کا ہو ڈر مجھ کو

کروں تجھ سے محبت آخری منزل کے آنے تک

محمدؐ کی غلامی کر کے خود کو سرخرو کر لوں