میں ہوں دیوانہ ترا اور لوگ دیوانے مرے

میں ہوں دیوانہ ترا اور لوگ دیوانے مرے

ساری دنیا کے ہیں ساغر اور مے خانے مرے


مجھ سے رو رو کے لپٹ جاتے ہیں تیرے عشق میں

شہر کے باغوں سے اچھے ہیں یہ ویرانے مرے


یہ تری چشم کرم کا فیض ہے جس کے طفیل

لوگ سنتے ہیں مزے لے لے کے افسانے مرے


تیرا دیوانہ سمجھ کر ، تیرا مستانہ سمجھ کر پیار سے

بھیجتے ہیں پھُول کچھ ہمدرد انجانے مرے


ایک بھی آنسو نہیں باقی مرے پیارے رسولؐ

خشک ہو کر رہ گئے آنکھوں کے پیمانے مرے


منتظر کب سے شہنشاہا ہیں تیری دید کے

رات دن روتے ہوئے دونین مستانے مرے


میرے دل میں سینکڑوں پھُولوں کی خوشبو آگئی

کس نے تیرا نام چُوما آ کے سرہانے مرے


ڈوبتا جاتا ہوں مَیں دن رات اُن کے عشق میں

بڑھتے جاتے ہیں ترے یاروں سے یارانے مرے


آرہا ہے سامنے آنکھوں کے دربار رسولؐ

توڑ دے انجؔم تمناؤں کے بُت خانے مرے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

میں جنت کی زمیں مانگوں نہ جنت کی ہوا مانگوں

دل میں نہیں بسایا تیرے سوا کسی کو

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

درِ دل پر ہوئی دستک تو میں تیری طرف دوڑا

ایک سیلِ آرزو ہے اور مَیں

عمر بھر معصوم سی مہکار میں ڈوبا رہوں

خدا سے کہیں مصطفیٰ کون ہے

کس کی آنکھیں کس کی ہے ایسی جبیں یا رحمت اللعالمیں

آپ کے قدموں پہ سر رکھنا مری معراج ہے

سجدہ، قیام، عجز و عبادت کچھ اور ہے