گُلوں کے اشارے دُعا کر رہے ہیں

گُلوں کے اشارے دُعا کر رہے ہیں

چمن کے نظارے دُعا کر رہے ہیں


انہیں شب کی تاریکیوں کا اَلم ہے

چمک کر ستارے دُعا کر رہے ہیں


شکستہ سفینوں کو مضبوط کر دے

شگفتہ کنارے دُعا کر رہے ہیں


ہمیں صبرِ شبیرؑ سے آشنا کر

کہ اشکوں کے دھارے دُعا کر رہے ہیں


رہائی اسیروں کی ہو یا محمّدؐ

فدائی تمہارے دُعا کر رہے ہیں

شاعر کا نام :- ساغر صدیقی

کتاب کا نام :- کلیاتِ ساغر

دیگر کلام

اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے

چمک جائے گا تشنگی کا نگینہ

دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفیٰؐ آؤ

یثرب کی رہگذار ہو اور پائے آرزو

اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں

لیتا ہُوں نام خُلد کا طیبہ نگر کے بعد

اِلہام جامہ ہے ترا

محشر میں قربِ داورِ محشر ملا مجھے

قرآں کے لفظ لفظ کی سچّی دلیل ہیں

لمحے لمحے میں ہے خوشبو بھینی بھینی آپ کی