گزر ہونے لگا ہے روشنی کا

گزر ہونے لگا ہے روشنی کا

کوئی ڈر ہی نہیں تیرہ شبی کا


محمد کے سفینے میں بٹھا دو

بھروسہ اب کہاں ہے زندگی کا


بشر کو دی محمد کی جو صورت

مقدر دیکھیے اس آدمی کا


مدینہ چومنے جانا تُو اے دل

نشہ ہو گا وہاں پر تازگی کا


پلائیں گے ہمیں وہ آبِ کوثر

کوئی حل تو ہوا اس تشنگی کا


خدایا کب مدینے کا سفر ہو ؟

ہمیں موقع ملے کب دل لگی کا


سمیٹیں گے جزا کے دن وہ دکھ میں

شبہ ہم کو نہیں آشفتگی کا


بشر ہو غمزدہ کوئی نہ قائم

انہیں خضرٰی میں دکھ ہے ہر کسی کا

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

جہانِ رنگ و بو کی نکہتوں میں مصطفیٰ ڈھونڈوں

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا

درود ان کے حسیں ہاتھوں پہ رب کا آسماں بولے

چلو مدحت سنا دیں ہم کہ ہیں میلاد کی خوشیاں

زباں سے بیاں کچھ ثنا تو ہوئی ہے

جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

نبی کے ٹھکانے سرِ آسماں ہیں

اِرم کے در کی سجاوٹ ہوا ہے آپ کا نام

خدا نے خود بتایا ہے مرے آقا نبی خاتم