زباں سے بیاں کچھ ثنا تو ہوئی ہے

زباں سے بیاں کچھ ثنا تو ہوئی ہے

سنو! مصطفٰی سے وفا تو ہوئی ہے


دفاعِ محمد میں گھر گھر سے موسیٰ

جواں فکرِ مسلم عصا تو ہوئی ہے


نگارِ سخن میں قلم مصطفائی

دھنک سوچ صبح و مسا تو ہوئی ہے


جہاں زلفِ احمد ہوا میں گُھلی ہے

وہاں عود و عنبر صبا تو ہوئی ہے


میں نکلا ہوں راہِ محمد میں لوگو

مرے سر پہ دیکھو گھٹا تو ہوئی ہے


ترانہ درودِ نبی ہے زباں پر

مری فکرِ مدحت رسا تو ہوئی ہے


قلم سے جو نکلے ہیں مدحت کے موتی

فنا کے سفر میں بقا تو ہوئی ہے


اسی دور میں پھر گھروں سے نکل کر

وفا مصطفٰی سے ادا تو ہوئی ہے


نہ گستاخ زندہ رہے کوئی اُن کا

مری نرم خُو کچھ بلا تو ہوئی ہے


سُجودِ حرا سے میں ہوں سبز قائم

خطا کار ہوں پر دعا تو ہوئی ہے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

جہانِ رنگ و بو کی نکہتوں میں مصطفیٰ ڈھونڈوں

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا

درود ان کے حسیں ہاتھوں پہ رب کا آسماں بولے

چلو مدحت سنا دیں ہم کہ ہیں میلاد کی خوشیاں

گزر ہونے لگا ہے روشنی کا

جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

نبی کے ٹھکانے سرِ آسماں ہیں

اِرم کے در کی سجاوٹ ہوا ہے آپ کا نام

خدا نے خود بتایا ہے مرے آقا نبی خاتم

لطف و کرم خدا نے کیا ہے نزول کا