جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

دھنک سا رنگ وہ قلب و نظر میں پائے گا


اگر حضور کی آمد مرے وطن میں بھی ہو

تو اِس چمن کا ہر اک بچہ دف بجائے گا


اگر ہوئی نہ زیارت جو خواب میں آقا

تو زندگی کا ہر اک پل مجھے رُلائے گا


اٹھا لُوں خاکِ مدینہ اگر اجازت ہو

میں چوم لوں گا تو یہ دل سکون پائے گا


حرا کے غار کا پتھر بنوں میں کچھ لمحے

تو مجھ پہ قدسی سلاموں کے ساتھ آئے گا


گیا جو شخص مدینے، حضور سے ملنے

وہ قدسیوں کو جھکائے جبین پائے گا


ہوئی نصیبوں سے اُن کو غلامیٔ احمد

عمل سے کون مقدر بلالی پائے گا


اُسے ملے گی یہ میلاد کی خوشی قائم

گلی گلی کے جو دیوار و در سجائے گا

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا

درود ان کے حسیں ہاتھوں پہ رب کا آسماں بولے

چلو مدحت سنا دیں ہم کہ ہیں میلاد کی خوشیاں

گزر ہونے لگا ہے روشنی کا

زباں سے بیاں کچھ ثنا تو ہوئی ہے

نبی کے ٹھکانے سرِ آسماں ہیں

اِرم کے در کی سجاوٹ ہوا ہے آپ کا نام

خدا نے خود بتایا ہے مرے آقا نبی خاتم

لطف و کرم خدا نے کیا ہے نزول کا

قرآن میں دیکھا تو انداز نرالا ہے