ہے ساری کائنات میں طیبہ نگر حسیں
پیارے نبی کے شہر کے دیوار و درحسیں
گُزرے جہاں جہاں سے بھی سرکارِ دو جہاں
مہکی ہوئی ہے اب تک ہر راہ گزرحسیں
جُھک کر سلام کرتے تھے آقا کریم کو
آتے تھے جتنے راستے میں سب شجر حسیں
گوشے ہیں نُور و نُور اور جَگمگ فضا ہوئی
اُس شہرِ نور بار کے شام و سحر حسیں
دیکھی ہے جَب سے رَوضۂ انور کی اِک جھلک
اُس پَل میں قید ہو گئی میری نظر حسیں
ہے وَقف میری زندگی اب نعت کے لیے
اب زندگی کے ہو گئے آٹھوں پہر حسیں
قدموں میں دیں جگہ اسے سُلطانِ دو جہاں
پھر زندگی ہو ناز کی یُونہی بَسر حسیں