ہے ساری کائنات میں طیبہ نگر حسیں

ہے ساری کائنات میں طیبہ نگر حسیں

پیارے نبی کے شہر کے دیوار و درحسیں


گُزرے جہاں جہاں سے بھی سرکارِ دو جہاں

مہکی ہوئی ہے اب تک ہر راہ گزرحسیں


جُھک کر سلام کرتے تھے آقا کریم کو

آتے تھے جتنے راستے میں سب شجر حسیں


گوشے ہیں نُور و نُور اور جَگمگ فضا ہوئی

اُس شہرِ نور بار کے شام و سحر حسیں


دیکھی ہے جَب سے رَوضۂ انور کی اِک جھلک

اُس پَل میں قید ہو گئی میری نظر حسیں


ہے وَقف میری زندگی اب نعت کے لیے

اب زندگی کے ہو گئے آٹھوں پہر حسیں


قدموں میں دیں جگہ اسے سُلطانِ دو جہاں

پھر زندگی ہو ناز کی یُونہی بَسر حسیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ولائے سیّدِ سادات کانِ رحمت ہے

آقائے دو جہاں مرے سرکار آپ ہیں

احسان مجھ پہ ہے مرے خیرالانام کا

عشقِ احمد کا دیا دل میں جلائے رکھوں

کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے

اے مدینے کے تاجدار سلام

ہو گییاں نے نظراں آج سرکار دِیاں

چُن چُن مَیں حرفاں دے موتی ہار بناواں نعتاں دے

ایس دِل دے کورے کاغذ تے سوہنی تصویر بناواں مَیں

سرکار جدوں آئے پُھل کِھڑ گئے بہاراں دے