ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے

ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے

خوش نصیبی پھر ہمارے ہم قدم ہونے کو ہے


شاہِ محبوباں کے درکی حاضری ہو گی نصیب

قافلہ اپنا رواں سوئے حرم ہونے کو ہے


رحمتِ باری برسنے کا ہے موسم پھر قریب

جوئےسرشاری یہ اپنی چشمِ نم ہونے کو ہے


ہے درودی ساعتوں کا قریۂ جاں پر نزول

باصرہ افروز وہ قرآں شِیَم ہونے کو ہے


شہرِ شاہِ سروراں کی دید اور یہ کم تریں

اک فقیرِ بے نوا بھی محتشم ہونے کو ہے


نخلِ اُمیدِ حضوری وہ نظر آنے لگا

روشنی قلب و نظر میں دم بدم ہونے کو ہے


ان کے آنے کے تصوّر میں چمک اٹھی نظر

نصف شب بھی سوچتاہوں صبح دم ہونےکو ہے


یہ ثنائے نُورِ احمد حرفِ رنگ و نور سے

وقت کےماتھے پہ دیکھو پھر رقم ہونے کو ہے


اے حدی خواں اور بھی کچھ تیز لے چل کارواں

دھڑکنوں کا یہ سفر اب مختتم ہونے کو ہے


جا رکھوں اے کاش نوری انکےقدموں میں یہ سر

زندگی اب بے نیاز ِ کیف وکم ہونے کو ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

مدحت سے ابتدا ہو، مدحت پہ انتہا

چشم در چشم اک آئینہ سجا رکھا ہے

درودوں سلاموں سے مہکی ہوا ہے

وہ جو میثاق نبیوں سے باندھا گیا اس کا تھا مدعا خاتم الانبیاء

مہک اٹھے سحرسحر ہیں نکہتوں کےسلسلے