نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

وہ جلوہ ہائے نور کہ اظہار دم بخود


نقطہ بھی حسنِ اسمِ محمّد پہ بار ہے

تشبیہ ،استعارہ و اشعار دم بخود


تحریر ہو تو کیسے جلالت مآب حسن

خامہ دو نیم سرنگوں ، افکار دم بخود


وہ تابشِ ضحٰی ہو کہ والّیل کا جمال

ان کے حضور دن کہ شب تار، دم بخود


قرآں سرا ہوئے جو وہ قدسی مقال لب

دانشوارنِ عصر تھے لاچار دم بخود


عالم ہے ایک دیدۂ حیرت بصد نیاز

جلوہ کریں حضور تو ابصار دم بخود


اِس دشت جاں میں چمکیں اگر ان کے پائے ناز

ہوں چشم و گوش و لب پئے دیدار دم بخود


چوموں کبھی جو خواب میں بھی ان کا نقشِ پا

مخمور جاں ہو دل بھی ہو سرشار دم بخود


امڈی جو ان کی یاد تو جل تھل تھا روح تک

آنسو سرشکِ خوں ہوئے رُخسار دم بخود


نوری فضائے شہرِ مدینہ نظر میں ہے

اس حاضری پہ طالعِ بیدار دم بخود

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے