غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

نگاہِ لطف کا طالب ہے حال حال حضور


حرائے جاں میں کبھی روئے والضُّحٰی چمکے

ہوا ہے جادۂ ہستی یہ ضال ضال حضور


حیات قہر ہوئی زندگی وبال بنی

خزاں نے جھاڑ دی ہو جیسے ڈال ڈال حضور


ہوئی وہ اُمّتِ عاصی پہ ظلم کی یورش

سسک سسک کے نکلتا ہے سال سال حضور


کریں جو اشکِ ندامت سے پھر وضو اکثر

ہوئے ہیں ایسے مصلّی تو خال خال حضور


مجھے یقین ہے اک دن یہ حال بدلے گا

ہے لب پہ وردِ علی دل میں آل آل حضور


کرم سے آپ کے شاہا ظفر سلام بہ لب

درود مست ہے دل کی یہ تال تال حضور

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘