ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

میں تیری آل کی نسبت ترے چمن پہ نثار


ترے حسین کے صدقے ترے حسن پہ نثار

ترے وجود کے پھولوں کے بانکپن پہ نثار


وہ نسلِ پاک کا گلشن وہ نُور نُور سمن

تری اس آلِ مطہّر ترے چمن پہ نثار


تری ہی آل کی شاہا ہے روشنی ساری

جہانِ قلب و نظر ہے کرن کرن پہ نثار


وہ ظلم و جور کی ظلمت بس ایک ہی شب تھی

پھر اس کے بعد اجالے رہے محن پہ نثار


وہ جس کا فیض تھے خطبے یہ کربلا و دمشق

جلالِ خطبۂ زینب ترے سخن پہ نثار


لکھیں جو آل کی مدحت پڑھیں جو آپ کی نعت

قلم قلم کے میں قرباں دہن دہن پہ نثار


لہو رلاتی ہے زنجیر کی صدا آقا

اسیرِ کرب و بلا کی میں ہر تھکن پہ نثار


عجیب کرب ہے آقا یہ چشمِ نوری میں

کبھی ہے خار پہ گریاں کبھی چبھن پہ نثار

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے