ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

شجرۂ نعت مری نسلوں میں رکھا جائے


میرے بچوں کو بھی ہو مدحِ نبی کی توفیق

نسل در نسل مجھے بردوں میں رکھا جائے


با ادب نعت کہیں نعت پڑھیں نعت سنیں

پاک لفظوں کو ادب لہجوں میں رکھا جائے


گر نہیں نعمتِ دیدار ابھی قسمت میں

یہ بھی کافی ہے مجھے منگتوں میں رکھا جائے


مثلِ خورشید سحر سیرتِ تاباں کا پیام

وادئ زیست کی شب راہوں میں رکھا جائے


تیری یادوں کے جلا کر شبِ فرقت میں چراغ

قریۂ جاں کے سبھی طاقوں میں رکھا جائے


مصحفِ نعت کا نوری یہ ادب ہے لازم

بغض و نفرت سے تہی سینوں میں رکھا جائے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

تری رحمت پہ ہے اپنا گزارا یا رسول اللّٰہ

گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار