جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

ظلامِ ظلم و ستم میں وہ چمکا جلوۂ خیر


افق افق پہ ہے اب بھی وہ روشنی کی دلیل

شبِ ربیع جو ابھرا تھا ایک لمعۂ خیر


جہانِ زیر و زبر میں وہ کلمۂ تمجید

بلا کے قحطِ صدا میں قسیمِ جذبۂ خیر


فلاحِ نوعِ بشر ہے انہی کے در سے جڑی

ہے خیر بارِ دوعالم انہی کا اسوۂ خیر


چلو چلو کہ شہِ دو سرا کی رہ پہ چلیں

نشانِ فوز وہی ہیں وہی ہیں قدوۂ خیر


رجالِ خیر بھی کرتے ان کے در کا طواف

وہی ہیں جانِ محبت وہی ہیں کعبۂ خیر


انہی کا قول ہے فیصل، عمل انہی کا ہے تام

کتاب ان کی ہدایت وہی صحیفۂ خیر


بلند بخت تھے انساں جو ان کے ساتھ رہے

خوشا وہ عصرِ منوّر زہے زمانۂ خیر


ظفر ازل سے ہے خانہ زادِ آلِ عبا

رہے گا تا بہ ابد ہی گلے میں حلقۂ خیر

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

وہ کرم بھی کیا کرم ہے وہ عطا بھی کیا عطا ہے

ہر نعت تری لفظوں کی تجمیل ہے آقا

بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

تری رحمت پہ ہے اپنا گزارا یا رسول اللّٰہ

گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے