وہ کرم بھی کیا کرم ہے وہ عطا بھی کیا عطا ہے

وہ کرم بھی کیا کرم ہے وہ عطا بھی کیا عطا ہے

جو گدا کو ڈھونڈتی ہے وہ سخا بھی کیا سخا ہے


وہ طلب بھی کیا طلب ہے جو قبول بے سبب ہے

جسے عفو خود چھپا لے وہ خطا بھی کیا خطا ہے


تیرے بولنے سے پہلے جسے رب قبول کر لے

میں فدا تری دعا کے وہ دعا بھی کیا دعا ہے


جو لٹا کے زندگانی کبھی ہو سکے نہ فانی

ترے عاشقوں کے صدقے وہ بقا بھی کیا بقا ہے


وہ قیام نیم شب کا کبھی رات رات بھر کا

جو عبادتوں سے مہکے وہ فضا بھی کیا فضا ہے


دمِ واپسیں بھی آقا مجھے اذن ہو ثنا کا

چلے یوں جو نعت پڑھتا وہ گدا بھی کیا گدا ہے


مری آخری گھڑی ہو مرے لب پہ یا نبی ہو

ہو ظفر پہ یوں جو آقا وہ عطا بھی کیا عطا ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ترا قرآن تری ذات کی تصویرِ مبیں ہے

سانسوں میں بس گیا ہے ترا نام یا نبی

اب جائے کہاں اُمّتِ دلگیر نبی جی

رہبر ہے رہنما ہے سیرت حضور کی

مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

ہر نعت تری لفظوں کی تجمیل ہے آقا

بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

تری رحمت پہ ہے اپنا گزارا یا رسول اللّٰہ