مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

ہے آپ کے ہاتھوں ہی میں تقدیر شہِ دیں


نفرت ہے عداوت ہے تکبّر ہے حسد ہے

معدوم ہوئی خُلْق کی توقیر شہِ دیں


ہوجائے جو ابرو کا سکوں بار اشارہ

کٹ جائے گی آلام کی زنجیر شہِ دیں


کیوں قتل ہوئے سامنے بچوں کے وہ اپنے

کیا ظلم ہے یہ خون کی تحریر شہِ دیں


اب کون یہاں ظالم و قاتل کو سزا دے

اندھی ہوئی قانون کی تعزیر شہِ دیں


پڑ ھتا ہو ں درود آپ پہ امید یہ لے کر

پا جائے سکوں مجھ سا بھی دل گیر شہِ دیں


ہو سیّدِ ہجویر کے اس دیس پہ رحمت

ہوجائے فنا جبر کی تزویر شہِ دیں


فریاد ہے نوری کے لبوں پر مرے آقا

مومن نہ کوئی ہو کبھی دلگیر شہِ دیں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

اور کس نے خیال رکھا ہے

ترا قرآن تری ذات کی تصویرِ مبیں ہے

سانسوں میں بس گیا ہے ترا نام یا نبی

اب جائے کہاں اُمّتِ دلگیر نبی جی

رہبر ہے رہنما ہے سیرت حضور کی

وہ کرم بھی کیا کرم ہے وہ عطا بھی کیا عطا ہے

ہر نعت تری لفظوں کی تجمیل ہے آقا

بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر