گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

جڑا ہے ذکر سے ان کے ہر اک حوالۂ خیر


زباں ہے لفظ طلب تو بیان عجز نشاں

قلم ہے تشنہ رقم لکھنے کو مقالۂ خیر


انہی کی سیرتِ اطہر انہی کا خلقِ عظیم

مطالعاتِ جہاں میں حسیں مقالۂ خیر


ورق ورق پہ ہیں روشن عطا و مہر و کرم

حیاتِ نور کا دفتر کھلا رسالۂ خیر


عطا نواز ہیں ان کے گدا بھی شاہوں کو

رہِ حبیب کے ذرّے بنے ھمالۂ خیر


کوئی بوصیری و حسّاں اگر ثنا میں رہے

اسے کریم عطا کرتے ہیں دو شالۂ خیر


کریں گے آپ شفاعت گناہ گاروں کی

مرے حضور مری بھی کریں وکالۂ خیر


بنامِ سیّدہ زہرا ہماری ماں کو ملے

لکھا ہوا ہے شفاعت کا جو قبالۂ خیر


رہِ حیات ہے روشن بہ نُورِ آلِ عبا

کہ تیری ذات ہے طٰہٰ وہ تیرے ھالۂ خیر


ظفر نصیب ہے مجھ کو جو نعتِ خیر یہاں

بروزِ حشر بھی حاصل رہے حوالۂ خیر

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ہر نعت تری لفظوں کی تجمیل ہے آقا

بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

تری رحمت پہ ہے اپنا گزارا یا رسول اللّٰہ

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا