تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

میرے لفظوں کا مقدّر تھا ثنا ہو جانا


تیری نسبت سے مجھے درد عطا ہو جانا

درد بھی وہ کہ ہر اک دکھ کی دوا ہو جانا


درد و آلام کے تپتے ہوئے صحرا میں سدا

تیری یادوں کا مرے سر پہ ردا ہو جانا


میں کہ مشغول رہا ہوں تری مدحت میں مدام

میری کج فکر کا یوں فکرِ رسا ہو جانا


تیری یادوں سے چراغاں سرِ مژگاں کرنا

تیرے جلووں میں خوشا محوِ لقا ہو جانا


میری سانسوں میں سلاموں کی مہک کا بسنا

میری دھڑکن کا درودوں کی صدا ہو جانا


یہ کرشمہ ہے ترے اسمِ گرامی کا شہا

نام لیتے ہی مصائب کا ہوا ہو جانا


کاش نوری کے مقدر میں یہ لکھا جائے

تیری دہلیز پہ بے نام فدا ہوجانا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا