فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

مرا بھروسہ فقط اسمِ نُور پر ہی ہے


سخن شناس ہوں ہرگز نہ کوئی شاعر ہوں

مرا مدار عطائے حضور پر ہی ہے


چمکتے چاند ستارے یہ کہکشاں یہ سحر

میرا خیال اسی ذکر نُور پر ہی ہے


ہماری آنکھ کا سرمہ ہے خاکِ پا ان کی

نظر ہماری سدا راہِ نُور پر ہی ہے


تری حدیث بصیرت فروغ ہے شاہا

بہشت ِ گوش اسی اک سرُور پر ہی ہیں


خطا سرشت ہوں پھر بھی امید رہتی ہے

کہ لاج میری تو شاہِ نشور پر ہی ہے


گواہ طائرِ سدرہ تری بلندی پر

ترا نشانِ قدم عرش و طور پر ہی ہے


صفائے کوثر و تسنیم اور یہ زم زم

بہائے لمس زلالِ حضور پر ہی ہے


حلالِ عید چمکتا ہے اس طرح جیسے

نشان ، ناخنِ پائے حضور پر ہی ہے


ہوا ہے روح کا موسم جو آج پھر جل تھل

تری نگاہ کی برکھا سرُور پر ہی ہے


دیارِ نُور میں نوری کو بھی اجل آجائے

مگر یہ لطف عطائے حضور پر ہی ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب