تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

تُجھ پہ جب تک فدا نہیں ہوتا

نخلِ ہستی ہرا نہیں ہوتا


جان تُجھ پر جو وار دیتے ہیں

نام ان کا فنا نہیں ہوتا


تیری سُنّت کو چھوڑ کر شاہا

کام کوئی بھلا نہیں ہوتا


کچھ بھی رکھتا نہیں وہ دامن میں

جو بھی تیرا گدا نہیں ہوتا


تم ہی ہوتے ہو آسرا میرا

جب کوئی آسرا نہیں ہوتا


تیری یادوں کو اوڑھ لیتا ہوں

سر سے سایہ جدا نہیں ہوتا


تیرے در سے ہیں جو بھی وابستہ

ان کو خوفِ بلا نہیں ہوتا


تیرے غم کا اسیر ہے نوری

اب خوشی سے رہا نہیں ہوتا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں

تیری رحمت سے قلم مجھ کو عطا ہو جانا

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

ترے جمال کی نکہت تری پھبن پہ نثار

فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے