’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

اک سرور و کیف میں ہوں خاص اک بہجت میں ہوں


لفظ و معنی کے جہانِ تازہ کی ہر دم نمود

لؤ لؤ و مرجان کی تخلیق کی ندرت میں ہوں


لالہ و گُل کھل رہے ہیں پھر بہارِ نعت میں

خامۂ خوشبو رقم سے آپ کی مدحت میں ہوں


قبّۂ اخضر نگاہوں میں بسا ہے دم بدم

قریۂ فردوس میں ہوں دید کی جنت میں ہوں


مطمئن مسرور چہرے دیکھتا ہوں ہر طرف

شہرِ اطمینان میں ہوں دائمی جنت میں ہوں


خوفِ عقبیٰ و غمِ دنیا ستائے کیوں مجھے

رحمۃ لّلعٰلمیں کے سایۂ رحمت میں ہوں


ساعتِ خوش بخت یوں ہی کاش خوش انجام ہو

دم بخود پیشِ مواجہ سرمدی راحت میں ہوں


نور کے غنچے مہکتے ہیں ریاضِ خلد میں

دامنِ دل بھر رہا ہوں گلشنِ نعمت میں ہوں


چھوڑ جاؤں گا میں نُوری دیدہ و دل کو یہیں

جا رہا ہوں خیر سے اور خواہشِ رجعت میں ہوں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے

مدحت سے ابتدا ہو، مدحت پہ انتہا