جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

جانِ رحمت ہے آپ کی سیرت

شانِ قدرت ہے آپ کی سیرت


راہ بھولوں کو راہبر کر دے

کیا بصیرت ہے آپ کی سیرت


جس سے بڑھتی ہے باہمی الفت

حسنِ حکمت ہے آپ کی سیرت


مہکی مہکی معاشرت جس سے

نور و نکہت ہے آپ کی سیرت


جس سے کھلتی ہیں خیر کی راہیں

راہِ جنّت ہے آپ کی سیرت


جس سے مٹتی ہیں نفرتیں ساری

مہر و الفت ہے آپ کی سیرت


جس سے بٹتی ہیں راحتیں ہر سُو

بحرِ راحت ہے آپ کی سیرت


جس سے خوشیوں کے دیپ جلتے ہیں

نُورِ بہجت ہے آپ کی سیرت


کون دیتا ہے عزّتیں سب کو

سب کی عزّت ہے آپ کی سیرت


جس میں خورد و کلاں برابر ہیں

وہ عدالت ہے آپ کی سیرت


جس سے دشمن بھی فیض پاتے ہیں

وہ سخاوت ہے آپ کی سیرت


جس سے اعلیٰ ہوں خلقِ انسانی

فیضِ صحبت ہے آپ کی سیرت


لکھتا رہتا ہوں آپ کی نعتیں

ختمِ منّت ہے آپ کی سیرت


لکھتے لکھتے ہی جاں نکل جائے

قرضِ نعمت ہے آپ کی سیرت


نوری بندہ ہے آپ کا شاہا

وجہِ شہرت ہے آپ کی سیرت

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے

کشتِ ادراک میں جب کھلتے ہیں نکہت کے گلاب

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے

مدحت سے ابتدا ہو، مدحت پہ انتہا

چشم در چشم اک آئینہ سجا رکھا ہے