اِذن طیبہ کا عطا ہو یا نبی خیرالبشر

اِذن طیبہ کا عطا ہو یا نبی خیرالبشر

یوں نِکھر جائے یہ میری زندگی خیرالبشر


نورِ ربُّ العالمیں ہیں کوئی بھی اُن سا نہیں

ہیں بشر سرکار لیکن حق یہی خیرالبشر


ہے نبوّت اور رِسالت کا اُنہیں پر اِختتام

رب کی جانب سے نبی ہیں آخری خیرالبشر


گوشے گوشے سے جہاں کے دُور ظُلمت ہوگئی

ساتھ لائے اپنے ایسی روشنی خیرالبشر


سابقہ ساعت سے آئندہ کی ہے بہتر گھڑی

رِفعتیں ہیں آپ کے وہ ذِکر کی خیرالبشر


اُن کی رحمت کے میں قُرباں، وہ سدا کرتے رہے

عرض حق سے ربِّ ہَبْلِی اُمتی خیرالبشر


آپ ہی کے علم کی یہ بِالیقیں خیرات ہے

جِس کسی کو بھی مِلی ہے آگہی خیرالبشر


عشقِ طیبہ میں تڑپتا ہی رہوں آقا مُدام

ہو عطا ایسی مجھے دیوانگی خیرالبشر


اپنے مرزا کو طلب دربار میں پھر کیجئے

ہو مدینے میں دوبارہ حاضری خیرالبشر

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

سرورِ کونین شاہِ انبیاء سرکار ہیں

مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

جب کرم سرکار کا بالائے بام آجائے گا

یا نبی گر چشمِ رحمت آپ کی مِل جائے گی

دِل نشیں کانوں میں ہے رس گھولتی آوازِ نعت

دل سے نِکلی ہُوئی ہر ایک صدا کیف میں ہے

دلِ بے چین کی راحت نبی کی نعت ہوتی ہے

نبی کے نام کی سارے جہاں میں برکت ہے

دل پہ غم چھاگیا یا نبی