دل سے نِکلی ہُوئی ہر ایک صدا کیف میں ہے

دل سے نِکلی ہُوئی ہر ایک صدا کیف میں ہے

نامِ آقا کے وسیلے سے دعا کیف میں ہے


درِ سرکار سے منہ مانگی مرادیں لے کر

نعمتیں ہاتھ میں ہیں اور گدا کیف میں ہے


ہاتھ پھیلائے ہُوئے شاہ و گدا ہیں حاضر

اُن کے دربار میں تو ابرِ سخا کیف میں ہے


خُوں کے پیاسوں کو مُعافی کا دیا پروانہ

فتحِ مکہ پہ عنایات و عطا کیف میں ہے


مرحبا آمدِ سرکار کی ساعت آئی

فرش سے عرش تلک ساری فضا کیف میں ہے


اُن کی دہلیز پہ دم توڑ دے جو بھی آکر

ہے مقدر کا دھنی اُس کی قضا کیف میں ہے


آج پھر یادِ مدینہ نے کیا ہے بے چین

دل میں اُمید کا پھر آج دِیا کیف میں ہے


وجد کرتے ہُوئے گُزریں گے غلامانِ نبی

ربِّ سَلِّم کی وہ پُر نور صدا کیف میں ہے


جب سے دیکھی ہے درِ شاہ کی مرزا نے بہار

بے خودی کا ہے سماں صبح و مسا کیف میں ہے

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

جب کرم سرکار کا بالائے بام آجائے گا

یا نبی گر چشمِ رحمت آپ کی مِل جائے گی

اِذن طیبہ کا عطا ہو یا نبی خیرالبشر

دِل نشیں کانوں میں ہے رس گھولتی آوازِ نعت

دلِ بے چین کی راحت نبی کی نعت ہوتی ہے

نبی کے نام کی سارے جہاں میں برکت ہے

دل پہ غم چھاگیا یا نبی

گنبدِ خضرا کے سائے میں بٹھایا شکریہ

رحمتِ ربُّ العُلیٰ ہے میں مدینے آگیا