جب بھی کوئی پوچھتا ہے اہلِ سنّت کی سند
پیش کر دیتے ہیں ہم تو اعلیٰ حضرت کی سند
کیوں نہ سمجھیں ہم مسلماں خود کو عالی مرتبت
ہم کو قرآں نے عطا کی خیرِ اُمت کی سند
نفسی نفسی حشر میں ہوگا رسولوں کا جواب
مصطفیٰ کے ہاتھ میں ہوگی شفاعت کی سند
پَل کے پَل میں لا مکاں کی سیر کر کے آگئے
سورۂ والنجم ہے آقا کی رفعت کی سند
اتباعِ قول و فعلِ مصطفیٰ ہے با الیقیں
رحمتِ حق اور جنت کی بشارت کی سند
نقش کرلو نامِ احمد اپنے دل پر سنّیو
یاں یہی ہے نارِ دوزخ سے حفاظت کی سند
خاندانِ مصطفیٰ کا مرتبہ کیا پوچھنا
ہے قرآنِ پاک میں ان کی طہارت کی سند
اس لیے پڑھتے ہیں ہم سنّی کھڑے ہو کر سلام
ہے یہی سرکارِ طیبہ سے محبت کی سند
ہے الف مثلِ قیام حا ہے رکوع سجدہ ہے میم
دالِ احمد ہے مسلماں کی عبادت کی سند
غوثِ اعظم مظہرِ شانِ نبی جانِ علی
ان کو طیبہ سے ہوئی حاصل نیابت کی سند
ہند میں ہیں سنیوں کے جتنے بھی دار العلوم
سب کے سب ہیں سید العلماء کی محنت کی سند
شیخ نجدی تم کو ہم کس طور سے اپنا کہیں
جاؤ پہلے لاؤ تم سنّی جماعت کی سند
جس کا چہرہ کھل اُٹھے احمد رضا کے نام پر
گویا اس کو مل گئی جیتے جی جنت کی سند
اس لیے نظمی پڑھا کرتا ہے نعتِ مصطفیٰ
مثلِ حسّاں اس کو بھی مل جائے قربت کی سند
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا