جب سے ہمارے ہاتھوں میں دامانِ نعت ہے
ہم پر سدا عنایتِ جانانِ نعت ہے
گلہائے عشقِ سرورِ عالم سے ہے سجا
بے مثل و بے نظیر گلستانِ نعت ہے
حمدِ خدا کی راہ تو آسان ہے بہت
چلیے سنبھل سنبھل کے یہ میدانِ نعت ہے
شہرت کی شکل میں کبھی عزت کی شکل میں
ہم پر برس رہا ہے جو بارانِ نعت ہے
ہر شعبۂِ حیات ہے ممنونِ مصطفےٰ
’’ہر شعبۂِ حیات میں امکانِ نعت ہے‘‘
عشقِ رسول اور شب و روزِ مصطفےٰ
ان سے بھرا ہوا ہی تو ہر خوانِ نعت ہے
قرآن اور حدائقِ بخشش ہے سامنے
اپنے لئے تو بس یہی سامانِ نعت ہے
اللہ کا دیا ہوا سب ہے، بجا مگر
جو کچھ ہمارے پاس ہے فیضانِ نعت ہے
رہ رہ کے پھر خیال میں آنے لگے حضور
چلیے شفیقؔ آج پھر امکانِ نعت ہے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا