ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر
فدا یہ دل نبی کی ہر ادائے دل نشیں پر ہے
مِرے مصطفےٰ کو دیکھے جو عدو تو پیار آئے
وہیں نفرتوں کا تن سے وہ لباس اُتار آئے
نہ مدینہ جا سکوں میں نہ ہی بوئے یار آئے
مِرے بے قرار دل کو کہاں پھر قرار آئے
وہ طلسمِ عشق ہی تھا تِرے نام پر دِوانے
کبھی سر اُتار لائے کبھی سر اُتار آئے
مِری آنکھ آنکھ ہوگی مِری نیند نیند ہوگی
مِرے خواب میں اگر وہ شہِ ذی وقار آئے
وہ حریمِ نازِ جاناں ہے سرور پوچھنا کیا
گئے مست و بے خبر جو وہاں ہوشیار آئے
مجھے بھی عطا ہو یا رب قلمِ رضا کا صدقہ
مِری شاعری کے رُخ پر بھی ذرا نکھار آئے
یہی آخری تمنا ہے شفیقِؔ بے نوا کی
درِ پاکِ مصطفے پر کوئی دن گزار آئے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا