جب سے سانسوں میں مِری رچ بس گئی نعتِ نبی

جب سے سانسوں میں مِری رچ بس گئی نعتِ نبی

ذہن میں رہتی ہے میرے ہر گھڑی نعتِ نبی


شغل ہے اپنا یہی اب ہے یہی اپنا شعار

بس تِری زلفوں کی ہے مشاطگی نعتِ نبی


شرط ہے ایمان کی آنکھوں سے قرآں دیکھیے

ہے ’’لہب‘‘ کی آیتوں میں بھی چُھپی نعتِ نبی


مشکلیں آسان کرتی ہے یہاں بھی نعتِ پاک

حشر میں بھی کام آئے گی یہی نعتِ نبی


نور والی ذات سے وابستگی کا ہے اثر

کر گئی سب دور دل کی تیرگی نعتِ نبی


نعت خواں کی روح بھی محسوس کرتی ہے مٹھاس

گھول دیتی ہے دہن میں چاشنی نعتِ نبی


بس یہی آواز گونجی بزم میں سن کر شفیقؔ

خوشنما لفظوں کے ہیروں سے جڑی نعتِ نبی

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

مصروف صبح و شام ہیں ان کی عطا کے ہاتھ

کیسے عمر کے کفر کا سر ہو گیا قلم

نبی کا عشق ہے دل میں وفا مدینے کی

مجھ سے کیسے ہو بیاں عظمت رسول اللہ کی

جرات نہیں کسی کو جہاں قیل و قال کی

عرضِ موسیٰ کو صدائے لن ترانی مل گئی

جس نے نمازِ عشق ِ شہ ِ دیں ادا نہ کی

کیسے ممکن ہو مدحت سرائی تِری

دشمنوں نے لاکھ کیں گستاخیاں سرکار کی

ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر