مِرے دل میں یادِ شہِ اُمم مِرے لب پہ ذکرِ حبیب ہے
میں مریضِ عشقِ رسول ہوں یہی شغل میرا طبیب ہے
نہیں ہم کو اس سے کوئی غرض وہ امیر ہے کہ غریب ہے
ہے اگر وہ عاشقِ مصطفےٰ تو ہمارے دل کے قریب ہے
تو بہارِ خلدِ بریں شہا، تو قرارِ قلبِ حزیں شہا
تِرا نور نورِ مبیں شہا تو خدا کا اپنے حبیب ہے
جہاں سرنگوں سبھی عظمتیں جہاں پست ہیں سبھی رفعتیں
جہاں نور و عطر کی بارشیں وہ مزارِ پاکِ حبیب ہے
نہیں مجھ کو حاجتِ راہبرہیں مِرے قدم اُسی راہ پر
’’مِرا شوق ہے مِرا رہنما مِری حد وہ شہرِ حبیب ہے‘‘
وہ مہینہ آگیا حج کا پھر ہے شفیقِؔ عاصی بھی منتظر
ہو درِ حضور پہ حاضری کہاں ایسا اُس کا نصیب ہے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا