جو عرش کا چراغ تھا میں اُس قدم کی دُھول ہُوں

جو عرش کا چراغ تھا میں اُس قدم کی دُھول ہُوں

گواہ رہنا زندگی میں عاشقِ رسُول ہُوں


مِری شگفتگی پہ پت جھڑوں کا کُچھ اثر نہ ہو

کھِلا ہی جو ہے مصطفیٰ کے نام پر وُہ پھُول ہُوں


مِری دُعاؤں کا ہے رابطہ درِ حضور سے

اسی لیے خُدا کی بارگاہ میں قبول ہُوں


بڑھا دیا ہے حاضری نے اور شوقِ حاضری

مسرتیں سمیٹ کر بھی کِس قدر مَلول ہُوں


مظفّؔر آخرت میں بخشوائیں گے وہی مجھے

کہ سر سے پاؤں تک قصور ہُوں خطا ہُوں بھُول ہُوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

جامع الحسنات ہیں وہ ارفع الدرجات وہ

حضور آئے کہ سرکشوں میں محبتوں کا سفیر آیا

دل میں سرکارؐ کا غم رکھ لینا

میری بستی حجرۂ پائے رسولؐ

بندہ و مولا اوّل و آخر

مرکزِ عدل و محبت آپ ہیں

خدا نے مصطفےٰؐ کا عشق میرے نام لکھ دیا

نبی کی غلامی بڑی بات ہے

ہر ذرّۂ وجود سے اُن کو پُکار کے

خُدا سے کب خدائی چاہتا ہُوں