خُدا سے کب خدائی چاہتا ہُوں

خُدا سے کب خدائی چاہتا ہُوں

مُحمدؐ تک رسائی چاہتا ہُوں


خُدا شاہد ہے روزِ ابتدا سے

مَیں اُن کو انتہائی چاہتا ہُوں


مجھے تسخیر کرنے ہیں زمانے

حصارِ مصطفائی چاہتا ہُوں


بٹھا دو مسندِ پائے نبیؐ پر

مَیں قُربِ کبریائی چاہتا ہُوں


مِری آنکھوں میں بھر دو رنگ اُن کے

قلم میں رَوشنائی چاہتا ہُوں


اسیرِ مصطفےٰ کہہ کر پکارو

کہ ہر غم سے رہائی چاہتا ہُوں


رہیں ہمراہ وہ سارے سفر میں

بس اِتنی رہ نمائی چاہتا ہُوں


شہنشاہوں میں مُجھ کو بیٹھنا ہے

مُحمدؐ کی گدائی چاہتا ہُوں


یہ تعلیمِ مُحمدؐ کا اثر ہے

حریفوں کی بھلائی چاہتا ہُوں


سُنیں نعتیں مظفّر کاش آقاؐ

صلٰوۃِ خوش نوائی چاہتا ہُوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

جو عرش کا چراغ تھا میں اُس قدم کی دُھول ہُوں

مرکزِ عدل و محبت آپ ہیں

خدا نے مصطفےٰؐ کا عشق میرے نام لکھ دیا

نبی کی غلامی بڑی بات ہے

ہر ذرّۂ وجود سے اُن کو پُکار کے

کون کہتا ہے آقاؐ مدینے میں ہیں

بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی

یقین حاوی سا ہے گماں پر

زمین ہے میرے سر پہ جیسے

وہ جاری و ساری مسلسل ہیں وہ