کوثریہ

خیرِ کثیر اعزازِ پیمبر

فرماتا ہے معطیء اکبر


انا اعطینٰک الکوثر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پڑھ کے لکھوں حمدِ خدائے حکیم

تازہ رکھے فکر وہ نورِ قدیم


جوہرِ تخلیق الف ۔ لام ۔ میم

عرضِ مقامات وہ ذاتِ عظیم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


بعدہ، نعتِ رسولِؐ کریم

جن کو ملا رتبہء خُلقِ عظیم


منبعِ ہر مدح وہ اسمِ شریف

زندگی و بندگی میں جو منیف


فیض کا ان کے امیں دین ِ حنیف

نور تیرا ہے سر آغازِ حیات


تجھ سے ہر قدرِ حسیں کا اثبات

تجھ پہ ہر آن درود و صلٰوت


اے جمالِ عمل اے شانِ سخن

ذکر تیرا رہے عنوان ِ سخن


رشک ِ گلشن ہو بیابانِ سخن

طبعِ سادہ میں ترا رنگ آئے


دلنوازی کا مجھے ڈھنگ آئے

نعت میں کوثری آہنگ آئے


اشک کو مطلعِ اظہار بنایا جائے

حالِ دل رحمتِ عالم کو سنایا جائے


بوجھ اس طور طبیعت سے ہٹایا جائے

اے گلِ نو بہارِ محبوبی


رونقِ لالہ زارِ محبوبی

آپ ہیں شاہکارِ محبوبی


حلقہ مصطفے میں رہتے ہیں

گم نبی ؐ کی ولا میں رہتے ہیں


اک منّزہ فضا میں رہتے ہیں

جلوہ الکتاب دیکھا ہے


روئے رحمت مآب دیکھا ہے

کس زمانے کا خواب دیکھا ہے۔


سبز گنبد جو روبرو ہوتا

اشک سے ہر گھڑی وضو ہوتا


نور ہی نور چار سو ہوتا

دردِ ہستی کا مداوا تو ہے


ٹوٹے شیشوں کا مسیحا تو ہے

مہرباں سارے جہاں کا تو ہے


روح کے زخم دکھاؤں کس کو

داستاں دل کی سناؤں کس کو


رازداں اور بناؤں کس کو

۔


میرے حق میں بھی ہو جبریلِؑ امیں کی تائید

نعت سے کرتا رہوں فتنہ و شر کی تردید


میری تقدیم یہی ہے، یہی ٹھہرے تجدید

سوچنا چاہا جو اس ذات کو یکسو ہو کر


لفظ آنکھوں سےرواں ہو گئے آنسو ہو کر

میں بکھرتا ہی گیا دہر میں خوشبو ہو کر


درکار پئے نعت ہے پیرایہء فن اور

اس رہ کے مسافر کا ہے رخت اور چلن اور


کام آتا ہے دربارِ رسالت میں سخن اور

نعلینِ مبارک ہیں جو حجرات سے باہر


اترے ہوئے دو چاند ہیں طیبہؔ کی زمیں پر

کرتے ہیں دل و دیدہء عالم کو منور


خوشبوئے مدینہ سے لدی بادِ صبا بھیج

یا ذکر کا القا جو کرے ایسی ہوا بھیج


یارب مری جانب کوئی پیغامِ شفا بھیج

جب لفظ میں ہو پائے نہ اظہار ِ عقیدت


آنکھوں میں امڈ آتے ہیں انوارِ عقیدت

مہکا ہوا لگتا ہے چمن زارِ عقیدت


رکھتا ہے کشش عالمِ فانی اُسی دم سے

آفاق کی سانسوں میں روانی اُسی دم سے


جاری ہے مری زمزمہ خوانی اُسی دم سے

اللہ غنی رحمتِ سلطانِ مدینہ


حاضر ہوں سرِ جنتِ سلطانِ مدینہ

ہوتی ہے ادا مدحتِ سلطانِ مدینہ


حاضر در نبیؐ پہ ہیں ان کے کرم سے ہم

کہتے ہیں دل کی بات امیرِ حرم سے ہم


الفاظ میں کبھی تو کبھی چشمِ نم سے ہم

دربارِ مصطفٰےؐ میں گم صم کھڑا ہوا ہوں


یوں صاحبِ حرم کو تسلیم کہہ رہا ہوں

دامانِ آرزو کو معمور دیکھتا ہوں


مرکزِ فکر و فن ہے کون شاہِؐ حجاز کے سوا

لب پہ ہو کیوں کوئی سخن حرفِ نیاز کے سوا


چاہیے برگ و ساز کیا جذب و گداز کے سوا

امیِؐ نکتہ داں ہوا علم و ہنر کی آبرو


عمر حضورؐ ِ پاک سے شام و سحر کی آبرو

یعنی ہے ذاتِ مصطفٰے نوعِ بشر کی آبرو


جہاں میں سرورِؐ عالم کی رحمت کام آئے گی

قیامت میں شہِؐ دیں کی شفاعت کام آئے گی


کسی عالم میں ہوں آقاؐ کی نسبت کام آئے گی

نرالا آپ کا دیں ہے نرالی آپ کی ہستی


ہوئے بس آپ ہی سارے زمانوں کے لیے ہادی

فدا ہوں آپ پر میرے اب و جد اور دل و جاں بھی


آپ کا اسمِ مبارک جب گل افشاں ہوگیا

رنگ اور خوشبو سے پُر ہستی کا داماں ہوگیا


نور سے معمور ہر دشتِ دل و جاں ہوگیا

آپ کے دربار میں عبدِ گنہگار آگیا


سن کے جاؤکَ لبِ حق سے ستم گار آگیا

لے کےامیدِ شفاعت زار و لاچار آگیا


چلا ہے خیر کا ہر سلسلہ مدینے سے

کہ نور پاش ہیں خیر الوریٰ مدینے سے


سدا رہے گا مرا رابطہ مدینے سے

عجب سکون میسر ہوا مدینے میں


لگی ہوا بھی مجھے آشنا مدینے میں

تراب و آب بھی تھے دلکشا مدینے میں


عجب سکون میسر ہوا میدنے میں

لگی ہوا بھی مجھے آشنا مدینے میں


تراب و آب بھی تھے دلکشا مدینے میں

یا الٰہی رنگ لائے نسبتِ خیرالانامؐ


عام ہو دنیا میں نورِ سیرتِ خیرالانامؐ

دو جہاں میں سُرخرو ہو امتِ خیر الانامؐ


نغمہء حق تار دل کے چھیڑتا ہے آج بھی

خطبہء آخر نبیؐ کا گونجتا ہے آج بھی


میری نظروں میں وہ روئے پر ضیا ہے آج بھی۔

نبیؐ کی نعت مرا مستقل حوالہ ہے


سرِ نیاز پہ رحمت کا ظل حوالہ ہے

درونِ سینہ تب و تابِ دل حوالہ ہے


خراب کیوں ہے مرا حال یا رسول اللہؐ

کرم کی ایک نظر ڈال یا رسول اللہؐ


بڑھے سدا ترا اقبال یا رسول اللہؐ

نورِ نبیؐ جو چمکا سرِ وادیء عقیق


جلوہ خدا کا دیکھا سرِ وادیء عقیق

ہر سمت حسن بکھرا سرِ وادیء عقیق


مقصود کائنات نبیؐ کا دیارِ نور

اقلیمِ حُسن، ارضِ تمنا ، دیارِ نور


املِ جہاں کی آنکھ کا تارا دیارِ نو ر

حریمِ تمنا حریمِ رسالت


سکنیت کی دنیا حریمِ رسالت

تجلّی سراپا حریمِ رسالت


سنو میری فریاد یا ربِ کعبہ

کرو میری امداد یا ربِ کعبہ


کہ دل ہو مرا شاد یا ربِ کعبہ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

اللہ غنی رتبہ و توقیرِ پیمبرؐ

گردشِ دوراں کا درماں جشنِ میلاد النبیؐ

ماہِ ذیشان ربیع الاوّل

رفعت مرے آقاؐ نے وہ پائی شبِ معراج

ثبت دل پر جو مہرِ نبوت ہوئی

تیرہ فصیلِ وقت میں باب کھلا جمال کا

دین و دنیا کی قیادت آپؐ کو بخشی گئی

مِل جاوے جے چج حضوروں

مُک گئی کالی رات غماں دی

کتّھے اوہدی صفت ثنا کتّھے میرے اکھّر