کتنی صدیوں سے چمکتا تھا ہمارا سورج

کتنی صدیوں سے چمکتا تھا ہمارا سورج

جبکہ پیدا بھی فلک کا نہ ہوا تھا سورج


میراسورج ہے جو اندھوں کو بھی بینا کر دے

باعثِ نقصِ نظر ہے تجھے تکنا سورج!


قربتِ خاص کا احوال تو کیا کہیے ، کہ جب

’’نسبتِ شاہ نے ذرّے کو بنایا سورج ‘‘


مدحتِ مہرِ مدینہ کے نظارے دیکھے

بن گیا روزِ قیامت مرا نامہ سورج


مرکبِ ماہِ عرب تھا شبِ اسرا جو براق

ہر قدم پر وہ گیا سُم سے اگاتا سورج


چہرۂِ ماہ کا اس رات میں ہے عکس عیاں

گیسوئے سرورِ عالم ہے شب آسا سورج


ذرے اشعارِ غزل کے مِرے آگے کیا ہیں

نعتِ احمد کامِرے حصّے میں آیا سورج


رجعتِ شمس کے اعجاز میں حیرت کیا ہے ؟

بَردہ سورج کو بلاتا ہے اِک آقا سورج


دونوں مُلکوں میں نہ کیوں نور ہو عِرفاں کا عیاں

’’ پاک ‘‘ میں داتا ہے تو " ہند " میں خواجہ سورج


اِک کرن تھی" فَتَجَلّٰی " کی وہاں ،اور یہاں

چاند ہے " ثُمّ دَنا " اور " فَتَدَلّٰی " سورج


خاتمیّت کا قضیّہ ہے معظمؔ ! معقول

تارے چھپ جاتے ہیں جس وقت ہو نکلا سورج

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

آگیا جگ اتے لعل وے اماں آمنہ دا سوہنا

پئے مرشد پیا سوز گداز آقا عطا کردو

چھوٹتا ھے تیرا دربار مدینے والے

بہار طیبہ کے منظر ھمیں رلاتے ھیں

بنے دیوار آئینہ ترے انوار کے باعث

اگلے نبیوں کو رب نے سنایا ہے سچ

امکان میں تجلّیِٔ واجب ہے کیا، نہ پوچھ

حیاتِ دل کا ذریعہ حضور کا مداح

ہوجائے جن کی سمت عطائے نبی کا رخ

اِک وصفِ اُلوہی ہے تری ذات میں مفقود