میں لب کُشا نہیں ہوں اور محوِ التجا ہوں

میں لب کُشا نہیں ہوں اور محوِ التجا ہوں

میں محفل ِ حرم کے آداب جانتا ہوں


ان کو اگر نہ چاہوں تو اور کس کو چاہوں

جو ہیں خدا کے پیارے میں ان کو چاہتا ہوں


ایسا کوئی مسافر شاید کہیں نہ ہوگا

دیکھے بغیر اپنی منزل سے آشنا ہوں


کوئی تو آنکھ والا گزر ے گا اس طرف سے

طیبہ کے راستے میں ‘ میں منتظر کھڑا ہوں


یہ روشنی سی کیا ہے ‘ خوشبو کہاں سے آئی ؟

شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں


طیبہ کے سب گدا گر پہچانتے ہیں مجھ کو

مجھ کو خبر نہیں تھی میں اس قدر بڑا ہوں


دوری و حاضری میں اک بات مشتر ک ہے

کچھ خواب دیکھتا تھا ‘ کچھ خواب دیکھتا ہوں


اقبؔال مجھ کو اب بھی محسوس ہو رہا ہے

روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہو چاہے اک زمانہ کسی رہنما کے ساتھ

مِلا جو اذنِ حضوری پیام بر کے بغیر

سجدے جبیں جبیں ہیں دعائیں زباں زباں

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

طیبہ جو یاد آیا ‘ آنسو ٹپک گئے ہیں

مجھے بھی مل گئی کچھ خاک آستانے کی

کعبے سے اٹھیں جھوم کے رحمت کی گھٹائیں

نقاب شب عروس مہر نے چہرے سے سرکائی

اللہ اللہ مدینے کی راہیں

شمعِ بدرالدجیٰ ﷺ پھر جلادو