طیبہ جو یاد آیا ‘ آنسو ٹپک گئے ہیں
یہ آبگینے خود ہی اکثر چھلک گئے ہیں
جس جس روش سے گزری سرکار کی سواری
گلشن تو پھر ہیں گلشن ‘ صحرا مہک گئے ہیں
جس سمت اٹھ گئی ہیں رحمت مزاج نظریں
ماحول کے جبیں سے سجدے ٹپک گئے ہیں
روضے پہ چشم تر نے عاصی کی شرم رکھ لی
پلکوں سے کچھ فسانے خود ہی ڈھلک گئے ہیں
غربت میں ان کا دامن جب یاد آگیا ہے
فکرو نظر کی حد تک جادے چمک گئے ہیں
فریاد اب تو سن لیں سرکار عاصیوں کی
آہیں بھی تھک گئی ہیں ‘ آنسو بھی تھک گئے ہیں
اے زائرِ مدینہ رستہ نہ بھول جانا
ان منزلوں میں اکثر تقوے بہک گئے ہیں
اقبؔال صدق دل سے یہ نعت کس نے چھیڑی
بے نُور انجمن میں جلوے لپک گئے ہیں
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم