کعبے کا نور مسجدِ اقصیٰ کی روشنی

کعبے کا نور مسجدِ اقصیٰ کی روشنی

دو گونہ ہوگئی شبِ اسرا کی روشنی


کعبے سے جب چلی تھی سواری حضورﷺ کی

تھی شش جہت میں چہرہء زیبا کی روشنی


جبریل ہم رکاب ‘ جلو میں ملائکہ

اور آگے آگے منزل سدرہ کی روشنی


سر چشمہ معارف و اسرار ہیں حضورﷺ

کونین کو محیط ہے اقرا کی روشنی


اُتری جسد میں ڈھل کے رسالت مآب ﷺ کے

فرشِ زمیں پہ عرش معلیٰ کی روشنی


راتوں کو شہر طیبہ میں ظلمت کا کیا سوالَ؟

جلوے بکھیر دیتی ہے خضرا کی روشنی


اک اک نگاہ مدینے کی ہے رشکِ کہکشاں

اللہ رے نقوش کفِ پا کی روشنی


جلوہ گہِ حرم کا تقا ضا کچھ اور ہے

کافی نہیں ہے دیدہ ء بینا کی روشنی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی

سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

کعبہ مرے دل میں ہے مدینہ ہے نظر میں

گو روضہء اقدس کی طلبگار ہیں آنکھیں

ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے

ہو چاہے اک زمانہ کسی رہنما کے ساتھ

مِلا جو اذنِ حضوری پیام بر کے بغیر

سجدے جبیں جبیں ہیں دعائیں زباں زباں

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

طیبہ جو یاد آیا ‘ آنسو ٹپک گئے ہیں