کعبہ مرے دل میں ہے مدینہ ہے نظر میں
اب کون سی رونق کی کمی ہے مرے گھر میں
اس در پہ دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی
تھوڑا سا سلیقہ ہو اگر دبدہء تر میں
اب آنکھوں کو میری کوئی بے نور نہ سمجھے
کچھ جلوے سمٹ آئے ہیں دامان نظر میں
ہر گام پہ آنکھوں سے ٹپک جاتے ہیں سجدے
کچھ ایسے مقام آتے ہیں طیبہ کے سفر میں
اس شہر سے سورج بھی گزرتا ہے موّدب
کچھ ایساتقدّس ہے مدینے کی سحر میں
کعبے میں تو بے شک کوئی بُت اب نہیں موجود
کچھ بُت ابھی باقی ہیں مگر ذہنِ بشر میں
اس راہ کے ہادی ﷺ کا کہا بھی تو رہے یاد
احرام ہی کافی نہیں کعبے کے سفر میں
مرجاؤں تو اقبؔال مجھے خلد کے بدلے
تھوڑی سی زمیں چاہیے آقاﷺ کے نگر میں
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم