مدینے کے سارے مکیں محترم ہیں

مدینے کے سارے مکیں محترم ہیں ‘ مدینے کا ایک ایک گھر محترم ہے

کفِ پائے آقاﷺ کی خوشبو ہے ان میں ‘ مدینے کی ہر رِہ گزر محترم ہے


وہ نگری ہے اُس شاہِ کون و مکاں کی ‘ فقیری کو جس نے امیری عطا کی

امیروں کبیروں پہ کیا منحصر ہے ‘ مدینے کا دریوزہ گر محترم ہے


وہ لوحِ جبیں ہے یقیناً مکرم‘ جھکی ہو کبھی جو حدودِ حرم میں

میسر ہوئی ہو جسے دیدِ طیبہ ‘ خدا کی قسم وہ نظر محترم ہے


اترتی ہے جو نورِ خضرا میں دُھل کر مدینے کی وہ شب سراپا تقدس

جو ہوتی ہے پیدا اذانِ سحر سے وہ طیبہ کی ٹھنڈی سحر محترم ہے


جو آتا ہو اس کو وضو کا سلیقہ‘ ندامت میں ڈوبے ہوئے آنسوؤ ں سے

تو سائل کا حرفِ دعا محترم ہے ‘ دُعا تو دُعا چشم تر محترم ہے


وہ ارض مقدس فلک مرتبہ ہے ‘ وہ خاک قدم اب بھی خاک شفا ہے

مسافر کے رتبے کو کیا پوچھتے ہو ‘ مدینے کی گرد سفر محترم ہے


جہاں میرے آقاﷺ نے ڈالا تھا ڈیرا‘ دیارِ حرم سے مدینے پہنچ کر

اسے اپنے ہونٹوں سے چو ما ہے میں نے َ‘ وہ چھوٹا سا گھر کس قدر محترم ہے


تم اقبؔال قسمت کے کتنے دھنی ہو کہ آنکھوں کے احسان سے بھی بری ہو

تم اس شہر نور الہدیٰ میں کھڑے ہو جہاں زائر بے بصر محترم ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں

مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

اللہ اللہ طیبہ و بطحٰا کی پاکیزہ زمیں

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی

سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

کعبہ مرے دل میں ہے مدینہ ہے نظر میں

گو روضہء اقدس کی طلبگار ہیں آنکھیں

ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے