میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں ‘ اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھادوں


آنے والی ہے اُن کی سواری ‘ پھول نعتوں کے گھر گھر سجادوں

میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے ‘ اپنی پلکوں پہ شمعیں جلادوں


میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے ‘ میرا سرمایہ تو یہی ہے

اپنی آنکھوں کی چاندی بہادوں ‘ اپنے ماتھے کا سونا لٹادوں


بے نگاہی پہ میری نہ جائیں ‘ دیدہ ور میرے نزدیک آئیں

میں یہیں سے مدینہ دکھادوں ‘ دیکھنے کا سلیقہ سکھا دوں


روضہء پاک پیش ِ نظر ہے ‘ سامنے میرے آقاﷺ کا در ہے

مجھ کو کیا کچھ نظر آرہا ہے ‘ تم کو لفظوں میں کیسے بتا دوں


میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ‘ ان سے وابستہ ہیں ان کی یادیں

ان کی منزل ہے خاکِ مدینہ ‘ یہ گہر یو نہی کیسے لٹا دوں


میں فقط آپﷺ کو جانتا ہوں اور اسی در کو پہچانتا ہوں

اس اندھیرے میں کس کو پکاروں ‘ آپﷺ فرمائیں کس کو صدا دوں


مجھ کو اقبؔال نسبت ہے ان ﷺ سے ‘ جن کا ہر لفظ جانِ سخن ہے

میں جہاں نعت اپنی سنادوں ‘ ساری محفل کی محفل جگا دوں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

جوتمہیں بھی میری طرح کہیں نہ سکوں قلب نصیب ہو

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

اللہ اللہ طیبہ و بطحٰا کی پاکیزہ زمیں

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

مدینے کے سارے مکیں محترم ہیں

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی