مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

بے نور آنکھ سے بھی اُجالا دکھائی دے


تھوڑی سی دیر کو مجھے بینائی چاہیے

بس اک جھلک حضورﷺ کا روضہ دکھائی دے


یا رب عطا ہو مجھ کو وہ مخصوص روشنی

اٹھے جدھر نگاہ مدینہ دکھائی دے


جا گوں تو صرف ان کے خیالوں میں گم رہوں

سو جاؤں تو فقط رخِ آقاﷺ دکھائی دے


منزل مری وہ شہرِ کراما ت ہو جہا ں

ذرّوں سے آفتاب ابھرتا دکھائی دے


وہ شہر جس کا نام تو کعبہ نہیں مگر

گلیوں میں جس کی رونقِ کعبہ دکھائی دے


بے نوری نگاہ کا اک فائدہ بھی ہے

کانٹے سجھائی دیں نہ اندھیرا دکھائی دے


اقباؔل اپنی چشمِ بصیرت سے کام لو

یہ کیا ضرور آنکھ سے رستہ دکھائی دے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

فضا میں نکہتِ صلِ علیٰ ہے

سجدوں کا اثر اور ہے جلوں کا اثر اور

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

جوتمہیں بھی میری طرح کہیں نہ سکوں قلب نصیب ہو

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں

مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

اللہ اللہ طیبہ و بطحٰا کی پاکیزہ زمیں

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے