جوتمہیں بھی میری طرح کہیں نہ سکوں قلب نصیب ہو

جوتمہیں بھی میری طرح کہیں نہ سکوں قلب نصیب ہو

مری بات مانو تو میں کہوں مرے ساتھ سوئے حرم چلو


تمہں ہم سفر کی ہے جستجو ‘ مجھے راہبر کی تلاش ہے

چلو ایک ساتھ چلے چلیں‘ مِرا ہاتھ ہاتھ میں تھام لو


وہ جو گھر ہے میرے حضورﷺ کا‘ وہ جو در ہے نکہت و نور کا

اسی آستاں پہ پڑےرہو ‘ اسی دَر پہ عمر گزار دو


کبھی پیش آئیں جو مسئلے ‘ کبھی سر اٹھائیں جو مرحلے

کوئی اور کام نہ آئے گا جو صدائیں دوتو انہیں کو دو


جو دوا بھی ہیں ‘ جو شفا بھی ہیں ‘ جو شفیعِ روزِ جزا بھی ہیں

جنہیں جانِ لطف و عطا کہو ‘ جنہیں عینِ جو د و سخا کہو


وہی غمزدوں کے کفیل ہیں ‘ وہی عاصیوں کے وکیل ہیں

وہی مغفرت کی سبیل ہیں ‘ بس انہیں کا ذکر کیا کرو


وہ بڑے رؤف و رحیم ہیں ‘ وہ حبیب ربِ کریم ہیں

خود انہیں سے حال بیاں کرو‘ مرے واسطے بھی دُعا کرو


جو تمہارا بخت نہ ساتھ دے ‘ جو سفر کا حکم نہ مل سکے

تو بصد خلوص و سپردگی شب و روز نعت پڑھا کرو


مگر ایک بات نہ بھولنا کہ حضور ﷺ کس کے حبیب ہیں

کبھی وردِ صلِ علیٰ کرو‘ کبھی ذکرِ رب العلیٰ کرو

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

معراج نظر گنبد و مینار کا عالم

بے دیکھے مدینے کی تصویر ہے آنکھوں میں

فضا میں نکہتِ صلِ علیٰ ہے

سجدوں کا اثر اور ہے جلوں کا اثر اور

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں

مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا