مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

مجھ سا ناچیز درِ شاہ اُمم تک پہنچا


ماہ وا نجم بھی ہیں جس نقشِ قدم سے روشن

آج صد شکر میں اس نقشِ قدم تک پہنچا


اس کے آگے مری جرات ‘ نہ تقاضائے ادب

میرا افسانہ فقط دیدہ ء نم تک پہنچا


کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ نورِ تمام

ان اندھیروں میں ہمیں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا


جراءت اشکِ ندامت پہ ندامت ہے مجھے

اتنا گستاخ کہ دامانِ کرم تک پہنچا


اس کو کیا کہتے ہیں اربابِ خرد سے پوچھو

کیسے اک اُمّی لقب لوح و قلم تک پہنچا


نعت لکھنے کو قلم جب بھی اٹھا یا اقبؔال

قطرہ خونِ جگر نوکِ قلم تک پہنچا

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

جوتمہیں بھی میری طرح کہیں نہ سکوں قلب نصیب ہو

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں

اللہ اللہ طیبہ و بطحٰا کی پاکیزہ زمیں

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

مدینے کے سارے مکیں محترم ہیں

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی

سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے