مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

مری رَہ نما ہیں مدینے کی گلیاں


کہاں ایسی ہوتی ہیں پھولوں کی کلیاں

بہت خوشنما ہیں مدینے کی گلیاں


وہ عالم کہ بس چلتے پھرتے ہی رہیئے

عجب دِلرُبا ہیں مدینے کی گلیاں


سکوں اور راحت ہے ہر ہر قدم پر

دِلوں کی دَوا ہیں مدینے کی گلیاں


بہارِ گل باغِ جنّت یہیں ہے

بڑی پُر فضا ہیں مدینے کی گلیاں


ہدایت کے چشمے جہاں سے ہیں جاری

وہ بہرِ عطا ہیں مدینے کی گلیاں


وہ آرام جنّت میں ملتا ہو شاید

جو راحت فضا ہیں مدینے کی گلیاں


سمجھتے ہیں یہ راز اہلِ معَانی

دِلِ باصفا ہیں مدینے کی گلیاں


جو در کار صحت ہو حاضر یہاں ہو

مریضو دوا ہیں مدینے کی گلیاں


یہاں جو ہیں ساکن وہ بیمار کیوں ہوں

کہ دار الشفا ہیں مدینے کی گلیاں


خدا اور خدا کا نبی جانتا ہے

کہ در اصل کیا ہیں مدینے کی گلیاں


کرو دیدہ و دل کو روشن حمیؔد

اگر دیکھنا ہیں مدینے کی گلیاں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

ہر شے میں ہے نورِ رُخِ تابانِ محمّدؐ

ہمارے دل کے آئینے میں ہے جلوہ محمّد کا

شکر تیرا ہو سکے کِس طرح رحمٰن رسول

ایسی قدرت نے تری صورت سنواری یا رسول

ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا

مدینہ ہے اور جلوہ سامانیاں ہیں

آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار

ہو سامنے روضے کی جالی وہ دن وہ مہینہ آجائے

میم سے ہیں محبٗوب وہ رَب کے

یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کا