نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے

نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے

یہ نُور رات برستا رہا ہے گھر میرے


اِس التفات پہ میرا رُواں رُواں ہے گواہ

کرم طلب سے زیادہ تھا حال پر میرے


جمالِ گنبدِ خضرا، ضیائے صحنِ حرم

مرے سفر میں یہ جلوے تھے ہمسفر میرے


اُنہیںؐ کے نقشِ قدم پر کیا ہے میں نے طواف

مرے حضورؐ وہاں بھی تھے راہبر میرے


رُکے تو دیکھوں کہ روضہ ہے یا تصوّر ہے

ابھی تو گریہ ہے طاری حواس پر میرے


کبھی بلائیں تو پہونچوں گا اُنؐ کے قدموں تک

مگر ابھی کھلی آنکھوں کے یہ سفر میرے !


حنیفؔ اذنِ حضوری ملے تو عرض کرُوں

ابھی تو میرے ہی دامن میں ہیں گُہر میرے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

جو کسی کسی کا نصیب ہے

آپؐ اس طرح مری خلوتِ جاں میں آئے

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

مرحبا ختمِ مُرسلیںؐ آئے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ