کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا ، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں

کہ خُدا نے خُود بھی تو کہہ دیا، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


کوئی ایسی ذاتِ ہمہ صفت، کوئی ایسا نُورِ ہمہ جہت

کوئی مصطفےٰ ، کوئی مجتبےٰ، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


بجز اُن ؐ کے رحمتِ ہر زماں ، کوئی اور ہو تو بتائیے

نہیں اُنؐ سے پہلے کوئی نہ تھا نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


کسی ایسی ذات کا نام لو، جو امیں بھی ہو جو اماں بھی ہو

یہ مرے یقیں کا ہے فیصلہ، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


یہ نگار خانۂ روز و شب ‘ اُسی مبتدا کی خبر ہے سب

مگر ایسا جلوۂ حق نماء نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


یہ سوال تھا کوئی اور بھی ہے گناہگاروں کا آسرا

تو رُواں رُواں یہ پکار اُٹھا، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں


وہ قدم اُٹھے تو بیک قدم ہمہ کائنات تھی زیرِ پا

یہ بلندیاں کوئی چھُو سکا ، نہیں اُنؐ کے بعد کوئی نہیں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

مرحبا ختمِ مُرسلیںؐ آئے

نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں