میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

منزل بھی ہے گویا مرے ہمراہ سفر میں


سب اُنؐ کی ہی توصیف ہے والّیل کہ والّشمس

تاب اُنؐ سے شبِ تار میں نُور اُنؐ کا سحر میں


تھی کتنی زمانے کو ہدایت کی ضُرورت

آپؐ آئے فضا ڈوب گئی جذب و اثر میں


انسان کی عظمت کا سفر ہے شبِ اسریٰ

معراج اضافہ ہے مُہّماتِ بشر میں


ہے اپنے غلاموں سے انہیں ؐ کیسا تعلّق

کھِنچ آیا ہے اُس دَر کا اجالا مرے گھر میں


بڑھتے ہیں حضُوری میں غلاموں کے مراتب

میں خُود تو نہیں اب مری منزل ہے سفر میں


اُس نام کی حُرمت کو رگ و پے میں اتاروں

اُس ذِکر کے انوار نظر آئیں نظر میں


اے کاش کسی روز خد و خال میں ڈھل جائے

اک شکل سی پھرتی ہے مرے دیدۂ تر میں


غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہ بھی نہیں احساس

ہم کتنے سبک ہو گئے آقاؐ کی نظر میں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

مرحبا ختمِ مُرسلیںؐ آئے

نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں