اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

پھر لے چلو حضُورِ رسالت مآبؐ میں


اک شب دعائے نیم شبی کے جواب میں

مجھ کو مرے حضُورؐ نظر آئے خواب میں


دیکھا کہ سب ہے عکسِ خدو خالِ مُصطفٰؐے

جو کچھ لکھا ہُوا ہے خدا کی کتاب میں


صلِّ علیٰ بہ فیضِ جمالِ محمّدیؐ

جلوے حجاب میں تھے نہ آنکھیں حجاب میں


اک کیفِ سرمدی تھا کہ طاری تھا رُوح پر

حل ہو رہی ہو جیسے کرن آفتاب میں


میرے نصیب مجھ سے کچھ ارشاد بھی ہُوا

لیکن میں کچھ سمجھ نہ سکا اضطراب میں


دِل کیفیت میں غرق نظر حیرتوں میں گُم

محسُوس ہو رہا ہے کہ اب بھی ہوں خواب میں


اب تک یہ حال ہے کہ تصوّر کئے بغیر

اک شکل ہے کہ پھرتی ہے چشمِ پُر آب میں


اے رحمتِؐ تمام مُجھے یہ خبر نہ تھی

حصّہ مرا بھی ہے کرمِ بے حساب میں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے