دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

آپؐ آئے تو پتہ ہم نے خدا کا پایا


قابل ِ رشک تھے وہ لوگ جنہیں آپؐ ملے

زندگی اُس کی ہے جِس نے وہ زمانہ پایا


کِس قدر عام ہُوئی وسعتِ دامانِ کرم

کتنی صدیوں کے اندھیروں نے اُجالا پایا


نہ کوئی ہمسر و ہمتا نہ کوئی مِثل و عدیل

آپؐ کو آپؐ کے اوصاف میں تنہا پایا


نہ کوئی ایسا سخی ہے نہ کہیں ایسے گدا

ایک قطرے کی طلب کی ہے تو دریا پایا


بے سہاروں نے ضعیفوں نے تہی دستوں نے

دستگیری کے لئے آپؐ کو اپنا پایا


کوئی آزردہ نظر آیا تو آزردہ ہوئے

آپؐ تڑپے ہیں کسی کو جو تڑپتا پایا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

دُعا کو بابِ اثر سے گزار کر دیکھو

سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو